ناندیڑ 29 جولائی مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے ناندیڑ میں ایک روزہ ٹیچر کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدرو امیر جماعت اسلامی ہند محترم سید سعادت اللہ حسینی،امیر حلقہ مہاراشٹر مولانا الیاس خان فلاحی،بورڈ کے چیرمن عبدالعزیز محی الدین،ڈاکٹر شیخ عظیم الدین،اور دیگر ذمہ داران کو مدعو کیا گیا۔اس ایک روزہ تعلیمی کنونشن میں ریاست کے مختلف مقامات سے سیکڑوں کی تعداد میں اساتذہ نے شرکت کی۔
قاضی احتشام الدین کی تلاوت قرآن سے کنونشن کا آغاز ہوا۔اس کے بعد مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیرمن پروفیسر سیدعزیز محی الدین نے افتتاحی کلمات کے تحت ایک روزہ ٹیچرس کنونشن کے انعقاد کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کنونشن کے ذریعے اساتذ ہ کو تدرسیس کے شعبے میں آرہی نئی نئی تبدیلیوں کے بارے میں رہنمائی کرنا اور انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا تھا۔
”تدریس کے فکری،نظری،اور فنی و تکنیکی محاسن“کے عنوان سے کلیدی خطاب میں امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد اس کی روح اس ک نظریے میں مضمر ہے۔نظریہ تعلیم کی بنیاد رکھتا ہے۔طلبہ کو کس سمت میں ترقی دینی ہے۔اوران کے لئے کس قسم کی سونچ وفکر فروغ دینا ہے۔تعلیم کامقصد محض بازار کی ضرورتوں کو پورا کرنے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا حقیقی مقصد طلبہ کو ایک بہترین اور متوازن مستقبل کی تیاری فراہم کرنا ہے، جس میں ان کی ذاتی، اخلاقی اور فکری ترقی شامل ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والی نسلیں اخلاقی اور تہذیبی بحران سے دوچار ہیں، اور اساتذہ کو اس بحران سے نمٹنے اور طلبہ کو صحیح راستے پر چلانے کی ذمہ داری ہے۔ تعلیمی شعبے میں آرہی نئی نئی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں باخبر رہنے کی نصیحت کی۔درس و تدریس کے فرائض کی انجام دہی کو موثر بنانے کیلئے اساتذہ کو تدرسیس کے شعبے میں مہارت پیدا کرنے اور اپنے اندر جدید تکنیکی صلاحیتیں پیدا کرنے کی نصیحت کی۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اساتذہ کی پہلی نسل ہے جو ایسی نئی تعلیماتی تکنیکوں اور تخلیقی صلاحیتوں کی تربیت دے رہی ہے جو مستقبل کی ضروریات کو پورا کریں۔ ان کو نئے چیلنجز کے لئے تیار کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔
امیر حلقہ مولانا الیاس خان فلاحی نے ”ہمارا تعلیمی ورثہ اور ماضی کے چند درخشا پہلو کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے ملت کو تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے کیا کچھ کوششیں کی اس کے بارے میں کئی اہم باتیں بتائی۔مولانا نے قوم کی علمی ترقی میں معلم کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں رہنمائی کی۔جدید تعلیمی رجحانات اہمیت مواقع اور چیلنجز کے عنوان پر آ ل انڈیا آئیڈیل ٹیچر اسوسیشن کے قومی سیکریٹر اسلم فیروز نے خطاب کیا۔جس میں انہوں نے جہاں ایک طرف اساتذہ کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی وہیں دوسری طرف اسکول انتظامیہ،سرپرستوں کو بھی بچوں کی تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ کوششیں کرنے کی بات کی۔اس کے بعد محترمہ مبشرہ فردوس نے”موجودہ تعلیمی کلچر بڑھتے ہوئے منفی رجحانات پر نکیل“کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے تعلیمی شعبے میں آرہی تبدیلیاں اورتعلیم کے شعبے میں پیداہورہے تجارتی رجحانات پر گفتگو کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔بہتر تعلیمی ماحول کی فراہمی کے لئے اسکول انتظامیہ،اساتذہ،سرپرستوں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔دوپہر کے سیشن میں ڈاکٹر بدالسلام نے قومی تعلیمی پالیسی کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر تفصیلی رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی پالیسیاں تو بہت اچھی ہے لیکن اس پر عمل آوری کیلئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جارہی ہے۔آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ٹیچرس کی آسامیاں خالی پڑی ہے۔حکومت نے پارلیمنٹ میں باضابطہ اس کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن ان آسامیوں کو پرکرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔اس کے بعد کنونشن میں کوالیٹی کونشیاس نیس اور ہماری ذمہ داری کے عنوان سے ایک مذاکرہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔جس میں ڈاکٹر شیخ عظیم الدین،خواجہ معین الدین،عارف خان،پروفیسر سید جاوید صاحب نے رہنمائی کی جس میں تدریسی شعبے میں درپیش چیلنجز اور اساتذہ کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ڈاکٹر شیخ عظیم الدین نے کہا کہ اساتذہ کو تدریس کے روایتی طریقوں کو چھوڑ کر نئے اور جدید طریقے اپنانے ہونگے تاکہ کلاس میں موجود طلبہ کی دلچسپی میں اضافہ ہو۔انہوں اپنی تقریر میں تدریسی مہارت کے بنیادی اصولوں کے بارے میں معلومات دی۔ایک بہترین معلم طلبہ کے ساتھ کیسے پیش آتاہے اس بارے میں عملی تجربات کی روشنی میں کئی اہم باتیں بتائی۔اختتام پر امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے خطاب جس میں انہوں نے کہا کہ تدریسی پیشہ ہماری نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔بشرط ہے کہ ہم ان اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔صر ف معلومات کی فراہمی ہی معلم کا کام نہیں بلکہ طلبہ کو حکمت سکھانا یہ معلم کا اصل کام ہے۔
سید سعات اللہ حسینی نے اپنے خطاب میں اساتذہ کو ان کا مقام ومرتبہ پہنچاننے اور درس و تدریس کے ذریعے طلبہ کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے ذمہ دارانہ کوششیں کرنے کی اپیل کی۔کنونشن کی نظامت رضوان خان،اور عبدالماجد مجاہد نے کی اورمولانا الیاس خان فلاحی کی دعا پر کنونشن کا اختتام عمل میں آیا۔کنونشن میں چار سو سے زائد اساتذہ نے شرکت کی۔کنونشن کو کامیاب بنانے میں جماعت اسلامی ہند ناندیڑ کے مقامی ذمہ داران ارکان و کارکنان نے بھی اہم رول ادا کیا۔